مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غزہ کی کشیدہ صورتحال کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک امن منصوبہ پیش کیا، جس کا مبینہ مقصد خطے میں جنگ بندی اور استحکام قائم کرنا ہے۔ تاہم، اس منصوبے میں فلسطینی حقوق، غزہ کی خودمختاری، اور بین الاقوامی قوانین کے کئی اہم پہلوؤں کو نظرانداز کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے نہایت ہوشمندانہ اور ذمہ دارانہ ردعمل دیا، جس میں اس نے اپنے بنیادی مطالبات پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر منصوبے کی خامیوں کو واضح کیا اور فلسطینی قومی اتحاد اور بین الاقوامی قانونی فریم ورک پر زور دیا۔ اس حکمت عملی نے خطے میں سفارتی صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے اور امن مذاکرات کے مستقبل پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ٹرمپ کے منصوبے پر حماس کے ہوشمندانہ ردعمل کے پس منظر میں، ضروری ہے کہ اس جواب کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے۔
حماس نے بڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ کے خلاف صہیونی دشمن کی نسل کشی کو روکنے کے لیے اپنے بنیادی مطالبات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور منصوبے میں نہایت دانشمندانہ اور محتاط تجاویز شامل کیں۔ اگرچہ کچھ لوگ حماس کے اس ردعمل کو اس منصوبے کی قبولیت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، جو کہ صہیونی حکومت کے مفادات کی ترجمانی کرتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ حماس کے جواب میں ٹرمپ کے منصوبے سے کئی بنیادی اختلافات شامل ہیں۔
ان اختلافات میں سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے منصوبے میں حماس کے ساتھ مذاکرات کی تفصیلات کا کوئی ذکر نہیں، اور جو تفصیلات فراہم کی گئی ہیں وہ ایسے موضوعات پر مبنی ہیں جن میں حماس کی شرکت ضروری نہیں۔ اس کے برعکس، حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ ان معاملات میں شامل ہوگی جو غزہ کے مستقبل اور فلسطینی قوم کے حقوق سے تعلق رکھتے ہیں۔ مزید برآں، حماس ایک قومی آزادی کی تحریک ہے اور ٹرمپ کے منصوبے میں اسے دہشت گرد قرار دینے کی اصطلاح اس تحریک پر صادق نہیں آتی۔
مزید برآں، ٹرمپ کے منصوبے میں غزہ کی بین الاقوامی نگرانی یا حاکمیت کی بات کی گئی ہے، جبکہ حماس اس کے برعکس فلسطینی قومی اتفاق رائے کے تحت ایک آزاد اور خودمختار ادارے کو غزہ کی انتظامیہ سونپنے پر زور دیتی ہے، اور فلسطینیوں کی غزہ کی انتظامیہ میں شمولیت کو لازمی قرار دیتی ہے۔
فلسطینی قومی فریم ورک اور بین الاقوامی قوانین پر زور
غزہ کے مستقبل سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے پر ردعمل دیتے ہوئے حماس نے واضح طور پر عرب و اسلامی دنیا کی حمایت کو ناگزیر قرار دیا۔ منصوبے میں صرف چند عرب ممالک سے مشاورت کی بات کی گئی تھی، جبکہ حماس نے اس سے بڑھ کر عرب و اسلامی تعاون کو غزہ کی تعمیرِ نو اور سیاسی استحکام کے لیے بنیادی شرط قرار دیا۔
تحریک نے فلسطینی حقوق کو ایک جامع قومی مؤقف قرار دیا، جو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے فیصلوں پر مبنی ہے۔ حماس نے مطالبہ کیا کہ تمام امور کو ایک متحد فلسطینی فریم ورک میں دیکھا جائے، جبکہ ٹرمپ منصوبے میں اس پہلو کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔
حماس نے نہایت ہوشمندانہ انداز میں بین الاقوامی قوانین اور فیصلوں کو اپنے مؤقف کی بنیاد بنایا، کیونکہ ٹرمپ منصوبے کی کئی شقیں ان قوانین سے متصادم ہیں۔ اس حکمت عملی سے حماس مستقبل کے مذاکرات میں قانونی بنیاد پر امتیاز حاصل کرسکتی ہے اور عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط بناسکتی ہے۔
حماس کے کردار کو برقرار رکھنے پر تاکید
منصوبے میں حماس کو غزہ سے نکالنے، اس کے ارکان کو جلا وطن کرنے اور تحریک کو غیر مسلح کرنے کی تجاویز شامل تھیں، جنہیں حماس نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے اپنے قومی کردار اور مزاحمتی حق پر زور دیا۔ تحریک نے واضح کیا کہ وہ فلسطینی قومی فریم ورک کے تحت ذمہ دارانہ شرکت جاری رکھے گی۔
فلسطینیوں کے ہتھیاروں پر سمجھوتہ قبول نہیں
اسی طرح فلسطینی مقاومتی تنظیم نے مکمل طور پر غیر مسلح ہونے کی شرط کو بھی رد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ہتھیار مستقبل کی فلسطینی حکومت کے حوالے کیے جائیں گے، یعنی مزاحمت کا حق برقرار رہے گا اور غزہ کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس کا جواب کسی طور پر ٹرمپ منصوبے کی قبولیت نہیں بلکہ ایک سیاسی بصیرت کا مظہر ہے، جس نے تنظیم کو سفارتی میدان میں مضبوط کیا ہے۔ اس وقت امن مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، اور نہ ہی جنگ بندی یا قیدیوں کے تبادلے کے لیے کوئی حتمی تاریخ دی جاسکتی ہے، جیسا کہ ٹرمپ کے دعووں میں ظاہر کیا گیا۔
آپ کا تبصرہ